Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک مداح جو شاگرد بن کر اپنے استاد کا جگر کہلانے لگا: جگر جلال کی بایوگرافی




 

مرحوم جلال چانڈیو کے پیارے شاگرد جگر جلال کی بایوگرافی

نبی بخش چانڈیو عرف جگر جلال کا تعلق ضلع لاڑکانہ سے ہے۔ وہ جلال چانڈیو مرحوم کے مداح تھے اور زمانہ طالب علمی سے ہی ان کو سنتے رہتے تھے۔ جلال چانڈیو سے ان کی ملاقات 10 سال کی عمر میں شہداد کوٹ لاڑکانہ روڈ پر حکیم شاہ کے عرس کے موقع پر ہوئی، جہاں پر انہوں نے مرحوم جلالچانڈیو کو سنا، اور اس کے بعد انہیں مرحوم جلال چانڈیو کی طرح گانے کا شوق پیدا ہوا اور وہ اسکول میں مرحوم جلال کے گیت گایا کرتے تھے ۔

سکول کی زندگی میں وہ بوتلوں کے ڈھکن سے چپڑی بنا کر اور لکڑی و ربڑ سے یکتارو بنا کر اپنے دوستوں کے سامنے جلال چانڈیو کے گیت گایا کرتے تھے۔ جگر جلال کے کزن بھی گائکی میں دلچسپی رکھتے تھے اور لاڑکانہ کے ایک میوزک کلب میں گائکی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے تھے اور جگر جلال بھی اپنے کزن کے ساتھ میوزک کلب میں جایا کرتے تھے، جہاں پر انہوں نے اپنے کزن سے گذارش کی کہ وہ بھی مرحوم جلال چانڈیو کی طرح گلوکار بننے کے خواہش مند ہیں، لیکن ان کے کزن نے انہیں منع کر دیا ۔ تاہم جگر جلال نے اپنی والدہ سے گلوکار بننے کی اجازت مانگی ۔

جگر جلال نے اپنے والدین سے اجازت ملنے کے بعد اسی میوزک کلب میں استاد امداد علی مگنہار اور انور علی شیخ سے موسیقی کی تربیت حاصل کرنا شروع کی ۔ انہوں نے آہستہ آہستہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور مقامی تقریبات میں گانے لگے ۔ اس کے بعد وہ علاقے میں اس قدر مشہور ہوئے کہ مقامی لوگ اسے ننڈھو جلال (چھوٹا جلال) کہنے لگے ۔

غیبی خان چانڈیو کی برسی کے موقع پر مرحوم جلال چانڈیو کو مدعو کیا گیا تھا اور چھوٹا جلال (جگر جلال) بھی اس تقریب میں موجود تھے جہاں ان کی مرحوم جلال چانڈیو سے دوسری ملاقات ہوئی ۔ بعد میں وہ مختلف صوفیوں کے عرس میں گایا کرتے تھے اور مرحوم جلال چانڈیو کے قریب رہنے لگے۔ اس کے بعد وہ جلال چانڈیو مرحوم کے طالب علم کی حیثیت سے باقاعدہ گلوکار بن گئے ۔ مرحوم جلال چانڈیو کے ساتھ ان کی محبت اور عقیدت دیکھہ کر ان کے دوست اور مداح انہیں جگر جلال کے نام سے پکارنے لگے ۔

جگر جلال نے نے ایک سو سے زائد آڈیو کیسٹس اور سی ڈیز جاری کیں ہیں ۔ انہوں نے سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی شہرت حاصل کی ۔ جگر جلال نے سندھی فلم ’’جئے لطیف‘‘ کے لیے بھی گانا گایا ہے جسے مقامی طور پر بہت سراہا گیا ہے ۔ 2018 کے دوران جگر جلال نے اپنی مخصوص دھن میں کو کو کورینا بھی گایا جس کی وجہ سے وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ۔ بعد میں، انہوں نے اپنی ہی دھن میں اردو اور پنجابی کے بہت سے گانے ریلیز کیے جن مہں لٹھے دی چادر، نئے کپڑے بدل کر جاؤں وغیرہ شامل ہیں ۔ انہوں نے سندھی، اردو، پنجابی، سرائیکی اور ملک کی دیگر زبانوں میں گایا ہے۔



اگست 2019 کے دوران جگر جلال کو اس کے بیٹے آفتاب، بھتیجے امیر اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ضلع شکارپور کے علاقے کرم پور سے اغوا کیا گیا اور ڈاکوؤں نے اس سے ایک کروڑ روپے تاوان مانگا ۔ تاہم ان کے مداحوں نے سوشل پر مہم شروع کی  اور ساتھہ ہی سندھہ کے گلوکاروں نے بھی جگر جلال کی رہائی کے لیے کوششیں کیں ۔  جس کے نتیجے میں مقامی پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی جس کے دوران ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ اور ان کے ساتھ ایک اہلکار شہید ہوئے مزید ایک کانسٹیبل زخمی ہوا۔ بعد ازاں پولیس نے گرینڈ آپریشن شروع کرتے ہوئے جگر جلال کو ساتھیوں سمیت رہا کروایا ۔

جگر جلال سیاسی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کارکن  ہیں اور عموما اپنی گاڑی پر پی پی پی کا جھنڈا لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں ہیں ۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک تنقیدی گیت بھی گایا ہے جس کا عنوان ہے "این آر او نہ دونگا"۔

ستمبر 2021 کے مہینے میں جگر جلال ڈینگی بخار کا شکار ہوئے، جس کی شدت نے ان کے جگر پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں انہیں خون کی الٹیاں ہونے لگیں ۔ ان کی طبیعت اتنی بگڑ گئی تھی کہ وہ چار ہفتوں تک ہسپتال میں داخل رہے۔ تاہم بعد میں وہ بیماری سے صحت یاب ہو گئے اور اب وہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں ۔

Post a Comment

1 Comments

Please do not enter any spam link in the comments box