Ticker

6/recent/ticker-posts

سندھ کے مشہور فنکار استاد منظور سخیرانی کی بایوگرافی

Manzoor Sakhirani Biography

 

سندھ کے کمار سانوں استاد منظور سخیرانی کی بایو گرافی

منظور سخیرانی ولد بہار الدین سخیرانی  14 اپریل 1959 کو دادو شہر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد محکمہ ریونیو میں ملازم تھے ۔ منظور سخیرانی نے اپنی تعلیم اپنے آبائی شہر دادو سے ہی حاصل کی ۔ ان کے والد کی کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے انجینئر بنے لیکن منظور سخیرانی کو بچپن سے ہی گانے کا شوق تھا ۔

منظور سخیرانی نے کلاسیکیل موسیقی کی تربیت استاد قدرت اللہ سے حاصل کی ۔ انہوں نے اپنا پہلا البم 1980 میں "بند دروازو" جاری کیا ۔ 1976 کے دوران منظور سخیرانی کو پروڈیوسر نثار احمد میمن نے ریڈیو پاکستان کراچی پر متعارف کروایا ، بعد ازاں پروڈیوسر اعجاز علیم عقیلی نے ان کو پاکستان ٹیلی ویژن پر متعارف کروایا ۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر نے پہلا گیت استاد بخاری مرحوم کی تصنیف شدہ گیت "مونڈے نین" گایا ۔ اس گیت پر اوپر منظور سخیرانی سے بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔

اپنی کیریئر کی زندگی میں منظور سخیرانی نے 300 سے زائد البمز جاری کیے ہیں ۔ منظور سخیرانی نے پاکستان کی کئی زبانوں میں گیت گائے جن میں سندھی، اردو، بلوچی، سرائیکی اور پنجابی شامل ہیں ۔ لیکن آپ نے زیادہ تر سندھی زبان میں گایا ہے جس وجہ سے ان کو سندھہ کا کمار سانوں کہا جاتا ہے ۔ ان کے مشہور گیت مونڈے نین نہ، تون منجی نہ منجی مہربان ، جی جنھن کی چیم ، ہر کم کار میں بہ چار مجبوریوں اور کئی گیت ہیں جس وجہ سے انہوں نے شہرت حاصل کی ۔

منظور سخیرانی نے بہت سے شاعروں کے گیت گائے ہیں جن میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ، سچل سرمست، استاد بخاری ، شیخ ایاز ، امداد حسینی ، علی گل سانگی ، عبدالغفار تبسم اور انور قمبرانی شامل ہیں ۔

استاد منظور نے سندھی فلموں کے لیے بھی بہت سے گانے گائے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے بطور اداکار ایک سندھی فلم میں بھی پرفارم کیا ہے جس فلم کا نام "تلاش" ہے۔ منظور سخیرانی نے حمیراں چنہ اور اس کے علاوہ کئی فنکاراؤں کے ساتھ ڈیوٹ گیت بھی گائے ہیں ۔ اندرون ملک کے علاوہ وہ دبئی، شارجہ، انڈیا، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک میں بھی پرفارم کر چکے ہیں ۔

ان کی شادی کلثوم چنہ سے ہوئی ہے ۔ منظور سخیرانی کے تین بیٹے ممتاز علی، محمد جبران اور محمد مہران جب کہ دو بیٹیاں اجالا اور مالا ہیں ۔

سنہ 2001 میں استاد منظور سخیرانی جب بلوچستان کے علاقہ جعفر آباد جا رہے تھے  تب ڈاکؤں نے ان کو چھ ساتھیوں سمیت اغوا کر لیا تھا ۔ منظور سخیرانی کی رہائی کے لئے فنکار برادری ، ان کے مداحوں اور دیگر لوگوں نے پورے سندھ میں احتجاجی مظاہرے کیے ، اور نتیجتاً منظور سخیرانی، ڈاکؤں کی حراست میں 110 دن رہنے کے بعد 31 اکتوبر 2001 کو واپس آئے ۔ منظور سخیرانی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ان کو تیرہ افراد پر مشتمل پولیس کی وردی میں ملبوس ڈاکو کے گروپ نے اغوا کیا ۔ انہوں مزید بتایا کہ یہ ڈاکو تربیت یافتہ اور پڑھے لکھے افراد تھے جو انگریزی اخبارات پڑھتے تھے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں نے ان کی رہائی کے لیے 20 ملین روپے کا مطالبہ کیا تھا ۔

بدنام زمانہ ڈاکو صادق عرف سندھو ناریجو نے منظور سخیرانی کو اغوا کیا تھا ۔ سندھو ناریجو ضلع لاڑکانہ کے کچے کے علاقے عزت جی وانڈ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اس نے اپنی ناجائز سرگرمیاں مویشی اور دیگر گھریلو سامان کی چوری کرنے سے شروع کیں ۔ وہ 1980 کے دوران جنگلوں میں جاکر ڈاکوں سے جا ملا اور کئی مجرمانہ سرگرمیوں جیسے ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور قتل میں ملوث رہا ۔ سندھو ناریجو کو 2008 کے دوران صوبہ بلوچستان کے شہر اوستہ محمد ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ انہیں سینٹرل جیل سکھر میں نظر بند کیا گیا تھا ۔ 2010 میں سندھو ناریجو کو فالج ہوگیا جس وجہ سے اسے جیل سے سرکاری ہسپتال سکھر منتقل کیا گیا ۔ انسداد دہشت گردی عدالت خیرپور نے اسے 2015 کے دوران کئی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزائے موت سنائی جس کے بعد ان کے لواحقین نے اس کی بیماری کے باعث سندھ ہائی کورٹ میں رحم کی درخواست دائر کی ہوئی تھی ، لیکن سنہ 2016 میں سرکاری ہسپتال سکھر میں دوران علاج انتقال کر گئے ۔


Post a Comment

0 Comments