Ticker

6/recent/ticker-posts

میڈیکل کی دنیا کا ان پڑھ استاد، جس نے دنیائے طب میں اپنا مقام پیدا کیا


dr hamilton story

کیپ ٹائون کا ایک ان پڑھہ آدمی جس کو دینا سرجن مسٹر " ھملٹن " کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ ہی نہیں مسٹر ہملٹن کو ماسٹر آف میڈیسن کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا ۔   یہ شخص دنیا میں سب سے زیادہ سرجنوں کا بھی استاد رہا

 کیپ ٹان کی میڈیکل یونیورسٹی طبی دنیا میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے ۔ دنیا میں پہلی بار بائی پاس آپریشن اس یونیورسٹی میں ہوا تھا ۔ کیپ ٹاؤن کی اس یونیورسٹی سے ایک ایسے سیاہ فام شخص نے "ماسٹر آف میڈیسن " کی اعزازی ڈگری حاصل کی تھی جس نے زندگی بھر اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا ۔

جوشخص انگریزی کا ایک لفظ بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا تھا، لیکن 2003ء کو دنیا کے ایک مشہور سرجن پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں اہم اعلان کیا کہ "آج ہم ایک ایسے شخص کو میڈیسن کی اعزازی ڈگری دینے جا رہیں جس نے اب تک دنیا میں سب سے زیادہ سرجنس پیدا کیے۔ یہ شخص ایک غیر معمولی استاد اور حیران کن سرجن ہے ۔ اس شخص نے میڈیکل سائنس اور انسانی دماغوں کو حیران کر دیا ہے ۔

اس علان کے ساتھ ہی پروفیسر ڈیوڈ ڈینٹ نے "ہیملٹن" کا نام لیا، اور اس کے ساتھ پورے آڈیٹوریم کے لوگوں نے کھڑے ہوکر ہملٹن کا استقبال کیا ۔ یہ اس یونیورسٹی کی تاریخ میں سب سے بڑا استقبال تھا۔

ہیملٹن کا جنم کیپ ٹان کے ایک گاں "سنیٹانی" میں ہوا، اس کے والدین چرواہے کا کام کرتے تھے ۔ ہیملٹن بکری کی کھال پہن کہ پورا دن پہاڑوں پر ننگے پاں گھومتا رہتا تھا۔ بچپن کے دوران اس کا والد بیمار ہو گیا لہٰذا ہیملٹن بھیڑ بکریاں چھوڑ کر کیپ ٹان روانہ ہو گیا ۔

انہی دنوں کے دوران کیپ ٹان یونیورسٹی میں تعمیرات کا کام چل رہا تھا اور ہیملٹن یونیورسٹی میں مزدور کے طور پر بھرتی ہو گیا ۔

ہیملٹں کو پورے دن کی مزدوری کے بعد جو پیسے ملتے، وہ پیسے گھر بھجوا دیتا اور خود چنے چبا کہ کھلے گرانڈ میں ہی سو جایا کرتا تھا ۔

کئی سالوں تک  ہیملٹن مزدور کی حیثیت سے یونیورسٹی میں کام کرتا رہا، اور جب یونیورسٹی کی تعمیرات کا ختم ہوا تو وہ اسی یونیورسٹی میں مالی کے طور پہ بھرتی ہوگیا ۔

ہیملٹن کو ٹینس کورٹ کا گھاس کاٹنے کی ذمیداری سونپی گئی، وہ روز ٹینس کورٹ پہنچ کر گھاس کاٹتا اور تین برس وہ یہی کام کرتا رہا۔

پھر ایک دن ہیملٹن کی زندگی میں ایک عجیب موڑ آیا ،  جس سے وہ میڈیکل ساننس کی دنیا میں اس مقام تک پہنچا جہاں آج تک کوئی شخص نہیں پہنچا ۔

اس دن صبح کو پروفیسر رابرٹ جوئز 'زرافے' پر تحقیق کر رہے تھے کہ زرافہ پانی پینے کے لیے گردن جب جھکاتا ہے تو اسے غشی کا دورہ کیوں نہیں پڑتا ۔ اس تحقیق کے لئے رابرٹ نے آپریشن ٹیبل پر ایک زرافہ لٹایا اوراسے بیہوش کیا، لیکن جیسے ہی آپریشن شروع ہوا تو زرافے نے گردن ہلانا شروع کردی ، چنانچہ اس کو ایسے مضبوط آدمی کی ضرورت پڑی جو آپریشن کے دوران زرافے کی گردن جکڑ کہ رکھہ سکے ۔

پروفیسر اسی سوچ میں تھیٹر سے باہر آئے اور دیکھا کہ مضبوط قد کاٹھ  کا ایک صحتمند جوان سامنے پلاٹ میں گھاس کاٹ رہا تھا۔ پروفیسر نے اشارے سے ہیملٹن کو بلایا اور اس کو زرافے کو  پکڑنے کا حکم دیا، ہیملٹن نے خاموشی سے زرافے کی گردن پکڑ لی ۔

یہ آپریشن آٹھ گھنٹے تک جاری رہا، اور اس دوران ڈاکٹرز اور باقی لوگ چائے اورکافی کے وقفے کرتے رہے، لیکن ہیملٹن زرافے کی گردن پکڑ کر کھڑا رہا ۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد وہ چپ چاپ باہر نکلا اور جا کہ گھاس کاٹنا شروع کر دی ۔

دوسرے دن بھی پروفیسر نے ہیملٹن کو دوبارہ بلا لیا، وہ آیا اور زرافے کی گردن کو پکڑ کہ کھڑا ہوگیا ۔ اس کے بعد ہیملٹن کی یہ روٹین ہوگئی، وہ یونیورسٹی آتے ہی آٹھ دس گھنٹے آپریشن تھیٹر میں جانوروں کو پکڑ کے رکھتا اور اس کے بعد ٹینس کورٹ کی گھاس کاٹتا ۔

کئی مہینے تک اس نے دوہرا کام کیا، لیکن ہیملٹن نے اس اضافی ڈیوٹی کا نہ ہی کوئی اضافی معاوضہ طلب کیا اور نہ ہی شکایت کی ۔

پروفیسر رابرٹ جوئز نے اسکی اخلاص اور استقامت سے متاثر ہوکر ہیملٹن کو مالی سے  لیب اسسٹنٹ کا پروموشن دیا ۔

پروموشن کے بعد ہیملٹن یونیورسٹی آتا، اور آپریشن تھیٹر پہنچ  کر سرجنوں کی مدد کرتا ۔ اس کا یہ سلسلہ بھی کئی برسوں تک جاری رہا ۔

سال 1958ء میں ہیملٹن کی زندگی میں ایک دوسرا اہم موڑ آیا۔ اس سال ڈاکٹر برنارڈ یونیورسٹی آئے اور انہوں نے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کے آپریشن شروع کر دیئے ۔  ہیملٹن  ان کا اسسٹنٹ  بن گیا ۔ وہ  ڈاکٹر برنارڈ کے آپریشنز کو غور سے دیکھتا رہتا اور ان آپریشنوں کے دوران وہ لیب اسسٹنٹ سے ایڈیشنل سرجن بن گیا ۔

اب ڈاکٹرز آپریشن کرنے کے بعد ہیملٹن کو ٹانکے لگانے کی  ڈیوٹی دیتے ، وہ انتہائی شاندار ٹانکے لگاتا تھا۔ ہیملٹن کی انگلیوں میں صفائی اور تیزی تھی، اور اس نے ایک دن میں پچاس پچاس مریضوں کے ٹانکے لگائے ۔ وہ آپریشن تھیٹر میں کام کرتے کرتے سرجنوں سے زیادہ انسانی جسم کو سمجھنے لگا ۔

چنانچہ جونیئر ڈاکٹروں کو سکھانے کی ذمہ داری ہیملٹن کو سونپی گئی ۔ اور اس نے جونیئر ڈاکٹرز کو آپریشنز کی تکنیکس سکھانا شروع کردی، اور آہستہ آہستہ وہ یونیورسٹی کی اہم ترین شخصیت بن گیا ۔ وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے نا واقف تھا ، لیکن  دنیا کے بڑے سے بڑے سرجنوں سے وہ بہتر سرجن تھا ۔

1970ءمیں ہیملٹن کی زندگی میں تیسرا موڑ آیا، اسی سال جگر پر تحقیق شروع ہوئی تو آپریشن کے دوران ہیملٹن نے جگر کی ایک ایسی شریان کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے جگر کی منتقلی آسان ہوگئی ۔ ہیملٹن کی اس نشاندہی نے میڈیکل سائنس کے بڑے دماغوں کو حیران کر کہ رکھ دیا۔

 آج جب دنیا میں کوئی شخص جگر کا آپریشن کروانے کے بعد آنکھ کھولتا ہے تو اس کے کامیاب آپریشن کا ثواب براہ راست  ھملٹن  کو چلا جاتا ہے کیوںکہ اس کا محسن ہیملٹن ہوتا ہے۔

ہیملٹن نے یہ مقام اپنے خلوص اور استقامت کی وجہ سے حاصل کیا ۔ یہ شخص 50 سال کیپ ٹان میڈیکل یونیورسٹی میں کام کرتا رہا اور 50 سالوں میں انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی ۔  وہ رات کے وقت تین بجہ گھر سے نکل کر، 14 میل پیدل چل کہ یونیورسٹی پہنچتا اور ٹھیک چھہ بجے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو جاتا تھا ۔ لوگ اس کی پابندی کو دیکھہ کر اپنی گھڑیوں کو ٹھیک کیا کرتے تھے۔

پچاس برسوں میں ہیملٹن نے کبھی بھی تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ نہیں کیا ، اس نے اپنی ڈیوٹی کے اتنے طویل اوقات اور اپنی سہولتوں میں کمی کا کبھی بھی شکوہ نہیں کیا، لیکن اسکی زندگی میں ایک ایسا وقت آگیا جب اس کی مراعات یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی سے زیادہ تھیں اور اس طرح ہیملٹن کو وہ اعزاز ملا جو ابھی تک میڈیکل سائنس کے شعبہ میں کسی بھی شخص کو نہیں ملا ہے ۔

ہیملٹن میڈیکل ہسٹری کا پہلا ان پڑھ استاد اور سرجن تھا جس نے اپنی زندگی میں تیس ہزار سرجنوں کو ٹریننگ دی تھی ۔

ہیملٹن کی 2005ء میں موت ہوئی اور اسے یونیورسٹی میں دفن کیا گیا، اور اسکے بعد یونیورسٹی سے پاس آٹ ہونیوالے تمام ڈاکٹروں کے لئے لازم قرار دے دیا گیا وہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہیملٹن کی قبر پر جاکر تصویر بنوائیں اور اسکے بعد عملی زندگی شروع کریں۔

ہیملٹن کی صرف اس ایک ہاں نے اس کی زندگی بدل دی جس دن اس کو زرافے کی گردن پکڑنے کے لئے آپریشن تھیٹر بلایا گیا ۔

اگر وہ اس دن یہ کہہ کر انکار کر دیتا کہ میں مالی ہوں میرا کام زرافوں کی گردنیں پکڑنا نہیں تو وہ مرنے تک مالی رہتا.

ہیملٹن کی ایک ہاں اور اس کے آٹھ گھنٹے کی اضافی مشقت اس کے لئے کامیابیوں کے نئے موڑ لیکر آئیں اور وہ سرجنوں کا ااستاد بن گیا ۔

ہم لوگ زیادہ تر جاب کی تلاش میں رہتے ہیں ، جبکہ ہمیں کام کی تلاش کرنی چاہیے ۔ ہر نوکری کا کچھ کرائیٹیریا ہوتا ہے اور یہ نوکری اس شخص کو ملتی ہے جو اس نوکری کے کرائیٹیریا پر پورا اترتا ہو؛ جبکہ کسی بھی کام کا کوئی کرائیٹیریا نہیں ہوتا ۔ اگر آپ چاہیں تو چند دنوں میں دنیا کا کوئی بھی کام شروع کر سکتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت آپکو اس کام سے روک نہیں رکھ سکے گی ۔

 ہیملٹن نے اس راز کو پالیا تھا اس لئے اس نے نوکری کے بجائے کام کو فوقیت دی، اور اس طرح اس نے میڈیکل سائنس کی تاریخ ہی بدل دی ۔

ذرا سوچیں، اگر وہ سرجن کی نوکری کیلئے درخواست دیتا توکیا وہ سرجن بن سکتا تھا ؟ کبھی بھی نہیں ؛ لیکن اس نے مالی والی کھرپی نیچے رکھہ کر زرافے کی گردن پکڑی اور سرجنوں کا سرجن بن کے اس میں دنیا میں  مثال بن کے زندہ رہے ۔

ہم لوگ اسلئے بیروزگار اور ناکام ہیں کہ ہمیں صرف نوکری کی تلاش ہے کام کی نہیں! جس دن ہیملٹن کی طرح کام کرنا شروع کیا  تم دنیا میں نام کما کر بڑے اور کامیاب انسان بن جائیں گے۔


Post a Comment

0 Comments